Custom dimensions 200x200 px (2)

 پاکستانی ادب

یہ کہانی ہے پاکستانی ادب کی ، خاص طور پر وہ ادب جو اردو زبان میں تشکیل دیا گیا۔ پاکستانی ادب کو اردوزبان تک محدود کر دینے کی بھی ایک تاریخ ہے جس کا آغاز قیام پاکستان سے بہت پہلے ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تاریخ کا مرکز…. چاہے وہ انیسویں صدی ہو، بیسویں صدی ہو یا اب اکیسویں صدی…لا ہور ہے۔ چلیں، ہم آپ کو پاکستانی ادب کی یہ کہانی سناتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کہانی میں لاہور اور اردو کیا ہم رشتہ کیا ہے ، اور اس تعلق نے برصغیر پر بالعموم اور پاکستان پر بالخصوص کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ اپنی بات بیسویں صدی سے شروع کرتے ہیں جس میں لاہور کو برصغیر میں اردو ادب کے ممتاز مرکز کا درجہ حاصل ہوا۔ یہ ان ادیبوں کا مسکن بنا جن پر اردو زبان کو ناز ہے۔ اہل زبان کا شہر ہونے پر بھی یہاں جس طرح اردو ادب کی آبیاری ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ بیسویں صدی کے شروع میں سر عبد القادر کے رسالے مخزن سے لاہور میں ادب کی ترقی کانیاور واہوا۔ معروف سکالر عاشق حسین بٹالوی کے بقول اگر یہ سوال کیا جائے کہ بینظیم ہند کے کون سے دو جرائد تھے جن کے اجرا سے اردو ادب کے دھارے کارخ میکسر بدل گیا تو میں بے تکان جواب دوں گا کہ سرسید احمد خان کا تہذیب الاخلاق اورسر عبدالقادر کا خزن، جس طرح تہذیب الاخلاق نے ایک نئے عہد کی تخلیق کی مخزن بھی ایک نئے دور کا نقیب بنا۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرے تک عظیم نثرنگار مولانامحسین آزاداس شہر میں موجود تھے جو انیسویں صدی میں انجمن پنجاب کے پلیٹ فارم سے مولانا الطاف حسین حالی 

کے ساتھل کر لاہور میں جدید شاعری کی طرح ڈال چکے تھے۔ 1908 میں یورپ سے واپسی کے بعد علامہ اقبال کے اپنی وفات تک لاہور میں قیام نے اس شہرکو برصغیر بھر میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔ مولوی ممتاز علی کے ادارے 

دارالاشاعت پنجاب نے اردو زبان و ادب کی تروتن میں مثالی کردار ادا کیا۔ اس ادارے کی کتابوں اور رسالے پھول نے بچوں میں ذوق 

ادب پروان چڑھایا۔ اس کے بہت سے قاری بڑے ہوکر نامور ادیب بنے۔ بیش ہر نئے ادیبوں کی تربیت گاہ بھی تھا۔ اردو کے کتنے ہی نامور ادیب اس شہر کے پروردہ ہیں جس کی بہترین مثال غلام عباس ہیں جن میں سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی لیکن حکیم یوسف حسن کا رسالہ نیرنگ خیال ان کے لیے ادبی درس گاہ ثابت ہوا۔ پھول کی ایڈ یٹری نے ان کی صلاحیتوں کو اوربھی نکھارا۔ اسی زمانے میں مزنگ لاہور کا ایک لڑکا شالد ڈار لائبریریوں میں کتابوں کے مطالعے میں غرق رہتا۔ میٹرک میں بنگالی لڑکی میراسین کے عشق نے اسے اللہ ڈار سے میرابی بنادیا اور وہ آگے چل کر اردو کا ممتاز شاعر اور نثر نگارٹھیرا۔ 1920 کی دہائی میں نیازمندان لاہور کے نام سے ایک حلقہ قائم ہوا جس 

نے لاہور کو الگ سے ادبی مرکز تسلیم کرنے پر اصرار کیا۔ اس کی یو پی والوں سے ادبی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رہی۔ نیازمندان لاہور کے اراکین میں، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج، عبد المجید سالک، ایم ڈی تاثیر، صوفی تبسم، حفیظ جالندھری ، عبدالرحمن چغتائی، چراغ حسن حسرت اور غلام عباس شامل تھے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد کے بقول ’’تاریخی اعتبار سے بیحلقہ احباب نقریبا1920 کی دہائی کے وسط سے لے کر 1930 کی دہائی کے وسط تک پنجاب میں اردو ادب پر چھایا رہا۔“ بیسویں صدی کی پہلی تین دھائیوں میں اردو ادب نے لاہور میں جڑیں مضبوط کر لی تھیں لیکن صیح معنوں میں اس کے عروج کا زمانہ چوتھی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ نیرنگ خیال میں ادب لطیف اور ادبی دنیا نے بہت سے قلم کاروں کو متعارف کروایا، جو پہلے سے جانے مانے تھے ان کی نگارشات کو ان رسائل کے باعث قارئین کا وسیع حلقہ میسر آیا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب کے استاد تھے۔ ان کے شاگردوں میں فیض احمد فیض، ن م راشد اور کنھیا لال کپور شامل تھے۔ کاج سے باہربھی وہ فروغ ادب کے لیے متحرک رہتے فیض کے بقول وہ زمانہ اردو ادب کے شباب کا زمانہ تھا۔ ایف سی کالج کے طالب علم کرشن چندر کی افسانہ نویسی کا آغاز کاری میگزین فولیو سے ہو چکا تھا۔ ادبی رسائل میں ان کی تحریر میں جگہ پانے گئی تھیں اور ان کی مقبولیت تیزی 

سے بڑھ رہی تھی۔ راجندر سنگھ بیدی ڈاک خانے میں ملازمت کے ساتھ ساتھ کہانی لکھ رہے تھے جو منٹ کوبھی متاثر کر رہی تھی ۔ کنھیا لال کپورطز نگار کی حیثیت سے موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ شاعری میں اختر شیرانی کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نے نوجوانوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا فلیمنگ روڈ پر ان کا گھر شاعروں 

آدمیوں کا اڈہ تھا۔ اس دور میں اردو کے فروغ کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی کہ اخبارات کے ایڈیٹر صرف ادب کانتر استرا ذوق رکھتے بلکہ خودبھی شاعر و ادیب تھے۔ لاہور میں مولانا ظفر علی خان سا قادر الکلام شاعر اور عمدہ نثر نگار موجود تھا۔ سالک و مہر کی جوڑی علمیت میں کی تھی ۔ ممتاز نثر نگار اور شاعر، چراغ حسن حسرت اخبارنویس کی حیثیت سے سکہ جما چکے 

تھے۔ ممتاز نقاد او فکشن نگار شمس الرحمن فاروقی نے لا ہور کو اردو ادب کا منظر دمرکز قرار دیتے ہوئے لکھا: 

محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے زمانے میں بھی لاہورادبی مرکز تھا بنی باتوں کا سر چشم تھا لیکن اس لاہور میں وہ بات تھی جو بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی سے کچھ پہلے روشنی دینے کی تھی، اور وہ روشنی کچھ معطر معطری بھی تھی ۔ جس جس درجے میں وہ بات بڑھی اس درجے میں لاہور کے عشاق میں اضافہ ہوتا گیا۔ 

لاہور کے ادب پرور اور کھلے ڈلے ماحول کی گواہی ان مراکز سے بھی آئی جو ادب کی بساط پر اس کے حریف سمجھے جاتے تھے۔ معروف ادبی جریدے ساقی کے ایڈیٹر اور صاحب اسلوب نثر نگارشاہد احمد دہلوی نے لکھا کہ وہ جوسی نے کہا ہے کہ آرٹسٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کی تصدیق لاہور میں ہوتی تھی۔ ہندو مسلم سکھ ، عیسائی ۔ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ ان میں تیری نہیں آئی تھی۔ ادیب اور شاعر نے ادیب اور شاعری تھے۔ سجاظھیر نے اپنی کتاب روشنائی میں بتایا کہ 1938 کے تقر یبوسط سے ترقی پسند ادیبوں کے تین اہم مراکز قائم ہو گئے تھے۔ لاہور لکھنؤ اور حیدرآباد دکن۔ سجاڑھی کی لاہور میں علامہ اقبال سے بھی ملاقات ہوئی جنھوں نے ترقی پسند تحریک کے بارے میں دی اور ہمدردی ظاہر کی۔ 1939 میں لاہور میں بزم داستاں گویاں قائم ہوئی، کچھ ہی عرصے بعد اس 

نے حلقہ ارباب ذوق کا نام اختیار کرلیا۔ اسے ابتدائی زمانے سے ہی معتبر ادبیوں کا تعاون میسر آیا۔ اس ادبی حلقے نے اردو ادب کی تاریخ پر جتنے گہرے نقوش مرتب کیے، اس کی مثال برصغیر میں کوئی دوسری ادبی انجمن پیش نہیں کرسکتی۔ چالیس کی دھائی میں بھی اردو کی ترقی کا سفر جاری رہا۔ لاہور اردو صحافت کا اہم مرکز بن چکا تھا۔ اشاعتی اداروں سے اردو کے نامور ادیوں کی کتابیں شائع ہو کر برصغیر کے کونے کونے میں پہنچ رہی تھیں۔ رسائل آب و تاب سے شائع رہے تھے۔ ادبی ٹھکانے آباد اور ادبی اسیں قائم تھیں ۔ اردو سب کی زبان بن چکی تھی اور اس پر کسی ایک قوم کا اجارہ نہ تھا۔ قرۃ العین حیدر کے بقول پنجاب کے ہندو مسلمان اور سکھ تینوں فرقوں کے ادیب اردو دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ 

تقسیم جوں جوں قریب آرہی تھی مختلف قوموں کے درمیان تناؤ بڑھ رہا تھا، فضا مسموم ہوتی جارہی تھی لیکن ادب تخلیق ہورہا تھا۔ ادبی سرگرمیاں جاری تھیں۔ 1947 میں سویرا کا اجرا ہوا۔ لاہور کے کافی ہاوس کی رونق فسادات کے زمانے میں بھی مانندنہ پڑی۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی یاداشتوں میں لکھا: ‘یہاں ہر زاویہ نگاہ کے لوگ آتے اور دنیا بھر کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ۔ اور اس کی قضاتی کاسمو پیٹن تھی کہ جن دنوں فرقہ وارانہ فسادات کا زور تھا۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی جان کے لاگو تھے۔ اور مارچ سنتالیس کے فسادات میں بعض اوقات پوری مال روڈ ویران ہوتی تھی ان دنوں بھی کافی ہاؤس میں خوب گہما گہمی رہتی تھی۔ گپ بازی چلتی تھی۔ فسادات کے لیے میں تبادلہ آبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ غیر مسلم ادیب لاہور سے جانا نہیں چاہتے تھے پر انھیں مجبورأ اپنانبوب شہر چھوڑنا پڑا جس کی سب سے بڑی مثال راجندر سنگھ بیدی ہیں۔ ہندوستان میں بھی فضا مکدر ہورہی تھی ۔ منٹو کو اپنے پسندیدہ شہر بیٹی کو خیر باد کہہ کر لاہور آنا پڑا۔ سجا ظہیر بھی پاکستان آگئے تقسیم کے بعد لاہور بدستور اردو کا اہم مرکز رہالیکن اب اس کا مقابلہ دلی او لکھنو کے بجائے کراچی سے تھا جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اردو پکینگ لوگوں کا گڑھ بنا۔ مولوی عبدالت ، قرة العین حیدر عزیز احمد ممتاز شیر ہیں، شاہد احمد دہلوی اور غلام عباس سمیت بہت سے ناموران ادب یہاں آباد ہوئے ۔ انیس سو پچاس میں محمد حسن عسکری بھی یہاں بس گئے۔ اسی دھائی میں جوش ملیح آبادی بھی ہندوستان چھوڑ کر کراچی آن بسے۔ فیض کی نظم میں آزادی ان حالات کی خبر دے رہی تھی، جن میں قوم کے سفر کا آغاز ہورہاتھا: بیداغ داغ اجالا یشب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تونہیں تقسیم کے بعد ادبی فضا میں جو سکوت تھا اس میں منٹو کی لاہور آمد سے بچل شروع ہوئی جن کی محسن عسکری سے دوست نے ترقی پسندوں کو یخ پا کردیا ۔ منٹو کی کتاب سیاه حاشیے میں شامل عسکری کی تحریر سے ترقی پسند اوربھی بجھا گئے عسکری اور منٹو نے اردو ادب کے نام سے پر چیٹھی نکالا ۔ 1948 میں مصطفیل نے لاہور سے قوش جاری 

کیا ۔ اسی سال کراچی سے ماہ نو کا اجرا ہوا۔ پاکستان میں منٹوکی زندگی کے سات سال بڑے تلے گزرے 

۔ مقدے چلے ۔ ناشروں نے استحصال کیا۔ سرکار ترقی پسند اور رجعت پسند تینوں نے زچ کیالیکی تخلیقی اعتبار سے لاہور میں گزرا وقت ان کے لیے بہت بار آور ثابت ہوا۔ ان کے کئی نمائندہ افسانے اسی زمانے میں لکھے گئے ۔ منٹو کا اپنے ہم عصروں سے چھڑا رہتا تھا لیکن وہ 

نوجوان قلم کاروں کا حوصلہ بڑھانے میں فراخ دلی سے کام لیتے۔ اس لیے ایک طرف محمد خالد اختر کی کہانی کھویا ہوا افق کی نوک پلک سنوار رہے تھے تو دوسری طرف اشفاق احمد کے افسانوں کو بھی سراہ رہے تھے جنھوں نے گڈریا جیسابڑافسان لکھ کر ادبی دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ آنے والے برسوں میں اشفاق احمد کے ادبی سفر میں ان کی شریک حیات بانوقدسی بھی شریک ہوئیں اور دونوں نے فکشن نگار کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل کیا۔ محمد حسن عسکری نے اسلامی اور پاکستانی ادب کا نعرہ بلند کیا تو ان کو ہماری بھی ملے اور مخالف بھی۔ ہندوستان سے فراق گورکھپوری نے اس نظریے ادب پر تنقید کی اور سکری کی توجہ پاکستانی شاعر احمد ریاض کی نظم مالیات کی طرف دلائی جس کا ایک مصرع ہے:| کون کر سکتا ہے نسیم ادب کی جاگیر عسکری نے کراچی سے ادب میں جمود کا شوشا چھوڑا تو لاہور میں ان کی اس بات کو ان کے حلقہ اثر کے ادیبوں نے ہی کردیا جن میں انتظارحسین ، ناصر کاٹھی اور مظفرعلی سید نمایاں تھے۔ 

1949 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں چراغ حسن حسرت نے کہا ” رفیقان محترم ! ہم آج ایک ایسے شہر میں جمع ہیں جو اپنی قدیم 

تہنیں اور ادبی روایتوں کے لحاظ سے پاکستان بھر میں یگانہ اور منفردحیثیت رکھتا ہے ۔ اردو کو وجود میں لانے، پھر اسے لمی زبان کی حیثیت دینے میں پنجاب بالخصوص لا ہور نے بڑاحصہ لیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی اٹھان بہت اچھی تھی، چوٹی کے قلم کار اس تحریک کا حصہ بنے ۔ اس کا پھیلا حیران کن تھا مخلص کارکن بھی اسے میسر آئے ۔ اس کی سخت گیری اور باہر 

سے لائن لینے کی پالیسی نے اسے نقصان پہنچایا۔ دوسرے یہ پاکستانی ریاست کی نظروں میں کانٹے کی طرح کی تھی جو امریکا سے تعلقات استوار کر رہی تھی۔ 1951 میں راولپنڈی سازش کیس میں سجا ظہیر اورفیض احمد فیض کی گرفتاری سے اس تحریک کو بڑ ا د چکارگا۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی تو ترقی پسند تحریک بھی مسائل 

سے دو چار ہوئی۔ 1955 میں سجاڑ ہی ہندوستان واپس چلے گئے۔ ادیب آزمائش سے گزر ر ہے تھے لیکن ان کی حقیقی کن میں کی نہیں ہوئی تھی اس لیے اعلی پانے کا ادب تخلیق ہوتا رہا فیض جیل میں تھے تو دست صبا شائع ہوئی۔ 1954 میں ناصر کاٹھی کا پہلا موعد برگ نے سامنے آیا۔ 1958 میں مجید امجد کی پہلی کتاب 

شب رفت شائع ہوئی۔ 1959 میں قرۃ العین حیدر کا ناول ‘آگ کا دریا چھپا۔ فسادات کے بارے میں تو بہت لکھا گیا لیکن وہ خلقت جو ہجرت کے بعد نئی جگہ جا کر آباد ہوئی، اسے کن مسائل نے گھیرا، اس باب میں زیادہ نہیں لکھا گیا، جولکھا گیا اس کی بہترین مثال قرۃ العین حیدر کی کہانی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے جس میں ہجرت کے بعد کراچی میں آبادان مکینوں کا احوال ہے جنھوں نے ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے خود کو ہرقسم کے اخلاقی بندھنوں سے آزاد کر لیا ہے۔ چائے کے باغ میں وہ مشرقی بنگال میں آباد اشرافیہ کے فکر وعمل پر روشنی ڈالتی ہے۔ معروف مارکسی دانشور اعجاز احمد کے بقول ان دو کہانیوں میں کراچی اورمشرقی بنگال میں مین بورژوازی کے ابھرنے کے عمل کو پیش کیا گیا ہے۔ 

خدا کی بستی کے لیے عنوان کے تحت ناول میں شوکت صدیقی نے سفاک حقیقت نگار بن کر کراچی کے ان غریب باسیوں کی کھالکھی ہے جنھیں گردش حالات نے پیں کر 

رکھ دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سماج کے دوسرے طبقات کی حقیقی تصویر بھی پیش کی۔ ترقی پسند تحریک، پاکستان کے معتبر ادبی جرائد اور اشاعتی اداروں نے ہندوستان اور پاکستان کے ادیبوں کو آپس میں جوڑے رکھا۔ اس مرحلے پر جہاں ایک طرف اردو زبان مغربی پاکستان میں چل پھول رہی تھی تو دوسری طرف مشرقی پاکستان میں اس کے خلاف رومل بھی جنم لے رہا تھا۔ بات دراصل میتھی کہ اردو زبان کو مسلم اشرافیہ نے اپنایا اور پھر اس کی بنیاد پر کھڑی کی گئی مسلم قومیت کے ڈھانچے اور تصویر کو دیگر علاقوں میں نافذ کرنے کی کوشش کی جس کے نتے میں بنگال میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ بنگالیوں نے بنگلہ کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے تحریک چلائی۔ فروری 1953 ء میں مظاہرین پر گولی چلی۔ 1954 میں حکومت 

نے اردو کے ساتھ بنگال کو قومی زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ کیاتو کراچی میں اس کے خلاف احتجاج ہوا۔ معروف محقق عقیل عباس جعفری نے پاکستان کرونیکل میں لکھا: ‘اس فیصلے کا دارالحکومت کراچی میں بڑا شدیدرمل ہوا اور اس کے خلاف 

22 اپریل 1954 کو نہ صرف یوم سیاہ منایا گیا بلکہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی قیادت میں تقریبا 

ایک لاکھ افراد نے دستور ساز اسمبلی پر مظاہرہ بھی کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ صرف اور صرف اردو ہی کو واحد قومی زبان قرار دیا جائے مگر دو ہفتے بعد 7 مئی 1954 کو جب دستور ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو اس نے کثرت رائے سے اردو کے ساتھ بنگل کو بھی قومی زبان قرار دینے کی قرارداد منظور کر لی۔ دوسری طرف 1954 میں ون یونٹ بنا تو سندھ میں ون یونٹ 

کے خلاف تحریک شروع ہوئی جس نے سیاست ہی نہیں ادب پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ عطیہ داؤد نے سندھی ادب : ایک مختصر تاریخ میں لکھا ہے کہ ون یونٹ کے قیام نے سندھی قوم کو جھنجوڑ ڈالا جس کے بعد سندھی ادب میں ایک نیا موڑ آیا اور شاہکار سندھی ادب تخلیق ہوا۔ سندھی قوم پرست سیاستدانوں کی ون یونٹ کے خلاف تحریک میں سندھی شاعر، ادیب اور دانشور بھی شریک ہوئے جس کی ایک نمایاں مثال شیخ ایاز ہیں جنھوں نے جیل بھی کاٹی۔ اس زمانے میں ادیب ملکی سیاست میں ہی دیر نہیں رکھتے تھے بلکہ باہر کی دنیا میں جو کچھ ہورہا تھا اس کے بارے میں بھی ان کی واضح سوچ تھی جس کا بہترین اظبار الجزائر 

کے مسئلے پر ہوا۔ فراسی استبداد کے خلاف الجزائر کی جدوجہد سے ادیبوں کو بڑی ہمدردی تھی۔ اس مسئلے پر ترقی پسند اور رجعت پسند شیر و شکر ہو گئے ۔ لاہور میں یوم الجزائر منانے کا فیصلہ ہوا تو اس سلسلے میں قائم کمیٹی کے صدر فیض احمد فیض اور سیکرٹری انتظار حسین تھے محسن عسکری اور سبط حسن بھی اس نیک کام میں پیش پیش تھے۔ انتظار حسین نے لاہور سے جڑی یادوں کے بارے میں اپنی کتاب ‘چراغوں کا دھواں میں لکھا: ”جلسہ بہت دھوم دھام سے ہوا۔ الجزائر کی جدوجہد سے جذباتی تعلق ادیبوں کے سوا بھی ایک خلقت کو یہاں کرنے آیا تھا۔ وائی ایم سی اے ہال میں جب تل دھرنے کی جگہ نہ رہی تو ہال کے باہر برآمدے میں اور جن میں اور سیڑھیوں سے 

نیچے تک بجمع پھیلتا چلا گیا۔ ہمارے یہاں مصوروں کے اردو ادب سے شغف اور ادیبوں سے گہرے تعلقات کی ریت بھی رہی ہے۔ عبدالرحمن چغتائی افسانہ لکھتے تھے۔ صادقین رباعی کہتے 

تھے۔ شاکر علی نے مضامین قم کیے۔ انور جلال شمر اور رحیل اکبر جاوید تصویر میں ہی نہیں بنارہے تھے کشن بھی لکھ رہے تھے۔ سویرا کے کئی یادگار پر چوں کی ادارت 

حنیف رامے نے کی ۔ کراچی سے آزردوی نے شعور جیسا خوبصورت رسالہ نکالا۔ ایوب خان کے دور آمریت میں رائٹرز گلڈ کے نام پر حکومت نے ادیبوں کو ہم نوا بنانے کا منصوبہ بنایا ترقی پسند اور رجعت پسند اس کی حمایت میں ایک پیج پر آ گئے۔ لاہور 

سے مولانا صلاح الدین احمد اور کراچی سے حسن عسکری نے اس کا حصہ بننے سے انکار کر کے ادیبوں کی لاج رکھی۔ ادھر میدان عمل میں حبیب جالب بڑی بہادری سے 

ایوب خان کی آمریت کولکارتے رہے۔ 

ایسے دستور کو بے نور کو میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا 

1961 میں مشتاق احمد یونی کی پہلی کتاب چراغ تلے شائع ہوئی جوادی میدان میں ایک بڑے مزاح نگار کی آمد کا اعلان تھی۔ 1961 میں جمیلہ ہاشمی کے ناول تلاش بهاران کو آدم جی ادبی ایوارڈ ملا، جس کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں ممتاز مفتی کا ناول علی پور کا ایلیا تھا۔ 1962 میں ظفراقبال کا پہلا مجموعہ کلام آب روان شائع ہوا جس 

نے 

غزل کی صنف 

کے اعتبار اور وقار میں اضافہ کیا۔ اسی برس خد یہ مستور کا ناول ‘ نکن شائع ہوا۔ 1963 میں عبدالحسین کا اداس نسلیں چھپا۔ آنگن آگ کا دریا اور خدا 

کی بستی کی طرح یہ ناول بھی وقت کی کسوٹی پر پورا اترا اور اسے اردو ادب میں اہم مقام حاصل ہوا۔ ساٹھ کی دہائی میں خالدہ حسین کی ادبی سفر کا آغاز ہوا، جنھوں نے آگے چل کر اپنے عمده افسانوں کے ذریعے اردفاشن میں ممتاز مقام حاصل کیا اور سواری جیالا زوال افسانہ لکھا۔ الطاف فاطمہ نے ناولوں اور افسانوں کے ذریے اردوکشن میں اپناقش جمایا۔ ستمبر 1965 میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ 

کے دوران اہل قلم بڑے متحرک نظر آئے اور موثر انداز میں اپنا کردار ادا کیا۔ ریڈیو پر شاعروں کے نے گا کر گلوکاروں 

نے فوجی جوانوں اور قوم کا خون گرمایا۔ ساٹھ کی دہائی میں لاہور سے ہی شاعری کی تحریک شروع ہوئی جس نے زمانے کی تبدیلیوں کی بنا پر زبان کے مروج سان توڑ کر ایک نئی زبان میں شاعری کی اہمیت اجاگر کی ۔ جیلانی کامران، انیس ناگی اور فتار جالب اس تحریک کی بنیاد گزار تھے۔ افتخار جالب نے ٹی لسانی تشکیلات کی بحث چھیڑی اور لسانی حرمتوں کوتوڑنے پر زور دیا۔ ایک طرف تو ادبی تحریکوں سے وابستہ شاعر تو دوسری طرف وہ سخن ور جنھوں نے کسی نئی و پرانی تحریک سے واسطےنہیں رکھا، بس اپنی دھن میں مگن شعر کہتے رہے، ان شاعروں میں منیر نیازی بہت نمایاں نظر آتے ہیں: | صبح کاذب کی ہوامیں دردتھا کتنا منیر 

ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا ان کا شعر ہمیشہ حسب حال ہی رہا: منی اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے 

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ پنجاب کے مارکسی ادیوں نے پنجابی زبان و ادب کی ترقی کا بیڑا اٹھایا اور اس کے ذریعے نہ صرف پنجابی شناخت کو ایک نئے سرے سے دریافت کرنے کی کوشش کی، بلکہ پاکستانیت کے اس تصور کو بھی رد کیا جو لسانی اور مذہبی جبر کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا۔ 60 کی دہائی میں شروع ہونے والی اس تحریک 

کے سرخیل نجم حسین سید جیسے معتبر لوگ 

تھے۔ شفقت تنویر مرزا جو اردو میں غزل کہتے تھے وہ اس سے تائب ہو گئے۔ کچھ ایسے شاعر بھی تھے جن کی بنیادی شناخت اردو کے شاعر کی تھی لیکن وہ پانی میں شاعری 

کرتے رہے منیر نیازی اور ظفر اقبال اس کی مثال ہیں ۔ نسرین انجم بھٹی کا پنجابی شاعری میں اونچا مقام ہے لیکن اردو شاعری کے مجموعے بن باس کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ نثری نظم کے نامور شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اسی دور میں جشن فرید کے نام سے شروع ہونے والے ثقافتی اور ادبی میلے نے سرائیکی قومیت کی تشکیل کی جس کی بنیاد زبان تھی۔ سرائیکی ادیبوں نے قومی وسائل پر پنجابی تسلط کے خلاف آواز بلند کی ، اپنی زبان کی علیحدہ شناخت پر زور دیا اور پنجاب کوتقسیم کر کے سرائیکی صوبہ بنانے کی تحریک شروع کی ۔ سرائیکی زبان و ادب اس تحریک کی بنیاد ہے۔ 

1963 میں نامور افسانہ نگار اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے فون کا اجرا کیا جو منیر نیازی کے بقول فلمی اصطلاح میں ہٹ ہو گیا ۔ اس رسالے نے ادب کی بڑی خدمت کی ۔ کئی ادیبوں نے قائی صاحب کی تحریک پر اپناقلم نیام سے نکالا تو بہت سے نئے لکھنے والے فنون کے ذریع سامنے آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے سرگودھا سے ادب کا پرچم بلند کیے رکھا۔ 1966 میں اور ان کا اجرا کیا۔ ساہیوال میں مجید امجد موجود تھے جنھوں 

نے مرکز سے دور رہ کر ادب میں بلند رتبہ حاصل کرنے کی روشن مثال قائم کی۔ ممتاز ادیب غلام عباس نے اپنے افسانے دھنک میں ایسی مملکت کا خیال نقشہ کھینچا جس پر مذہبی انتہا پسندوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ ایوب خان کے آخری زمانے میں انھوں 

نے میر افسانه حلقہ ارباب ذوق میں سنایا تو وہاں ہنگامہ ہو گیا۔ کراچی کے ادبی رسائل میں ساقی ، نیا دور، افکار اور سی پانے اردو ادب کی بڑی خدمت کی۔ 1970 میں شکیل عادل زادہ نے کراچی سے سب رنگ ڈائجسٹ کا آغاز کیا جس نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی، اس ڈائجسٹ نے طبع زاد اور ترجمہ شدہ کہانیوں کے ذریعے عام قارئین کو ادب کی طرف راغب کرنے میں جو کردار ادا کیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔ ملک کی تقسیم کے اثرات ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ ملک کی طرح حلقہی دوکڑوں میں بٹ گیا۔ حلقہ ارباب ذوق (ادبی) اور حلقہ ارباب ذوق (سیاسی)۔ سہیل احمد خان 

نے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے فسطائی ذہنیت کوبھی کھل کھیلے کا موقع ملا جو پہل مضطرب ہورہی تھی لیکن زیادہ گاڑ پیدا نہیں کرسکتی تھی۔ اس سانحہ کے کچھ ہی عرصے بعد رات کے بے نوا مسافر ناصر کاٹی کا انتقال ہوا۔ موت سے پہلے ناصر کومشرقی پاکستان کے حالات نے مضطرب کئے رکھا۔: وہ ساحلوں پکانے والے کیا ہوئے وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے 

یہاں تک آئے ہیں چھینٹے ہو کی بارش کے وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے خلاف لاہور سے حبیب جالب بھی آواز بلند کرتے رہے: محبت گولیوں سے ہورہے ہو وطن کا چہرہ خوں سے دور ہے ہو 

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے یقین مجھ کو کہ منزل کھور ہے ہو 

نے پاکستان کی باگ ڈور اب ذوالفقارعلی بھٹو نے سنبھالی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں ادیبوں نے بھی حصہ لیا تھا، اس لیے پیپلز پارٹی سے شاعروں ادیبوں نے بڑی 

امیدیں وابستہ ہیں۔ پاکستان کے کسی حکمران کو اس بڑے پیمانے پر اہل ادب کی تائی میسر نہیں آئی۔ ون یونٹ کے خاتھے کی طرح سندھی اپنے صوبے میں اردو کے بجائے سندھی کو قومی زبان کی حیثیت سے نافذ کروانا چاہتے تھے۔ بھٹو دور میں ان کے اس مطالبے کے پورا ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ سندھی کو سندھ کی قومی زبان قرار دینے کا بل اسمبلی میں پیش ہوا تو ہنگامے شروع ہوئے اور لسانی فسادات پھوٹ پڑے 

۔۔ اردو بولنے والوں نے بل کی سخت مخالفت کی ۔ کراچی ، جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ پورا ہندوستان اجڑا تب کہیں جا کر کراچی آباد ہوا، اب وہ شہری رہا جس نے سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے تیل کو ہمیز دی۔ یہاں اردو بولنے والوں کے گھر چلے اور سندھی مخطوطات کو آگ لگائی گئی۔ کراچی میں سلیم احمدکا گھر ادب دوستوں کی آماجگاہ تھا۔ متارفکشن نگار اسدشد خان 

نے اپنے مضمون جہانگیر کوارٹرز کا Oracle“ میں لکھا: وہ سلیم احمد کا زمانہ تھا۔ کراچی 

میں ادب اور شعر لکھنے والوں کے لیے سب رستے جہانگیر کوارٹرز کو جاتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن پرقم میں ادب کی سجاجماتے۔ ضیاءالحق کے مارشل لا میں آئین کی تو ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ایک اور بڑا ظلم یہ ہوا کہ پاکستان کے مقبول ترین رہنماذوالفقار کی تجھ کو پھانسی دی گئی، اس لیے ضیاعوام 

کی دہری نفرت کا نشانہ بنے ۔ شاعروں کی کبھٹو سے عقیدت کا نمونہ خوشبو کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا جسے سلیم شاہ نے مرتب کیا۔ ضیاء دور میں گھٹن بہت تھی۔ احمد فراز اور فہمیدہ ریاض کو جلا وطن ہونا پڑا۔ انورسجاردبیل گئے۔ سنسر کا عذاب تھا۔ کتابیں بھی پابندی کی زدمیں آئیں، جس کی ایک مثال، اکرام اللہ کا ناول گرگ شب ہے۔ طلسم ہوش ربا بھی فحش شہری ۔ ضیاءاحق ادیبوں کو سامنے بیٹھا کر بھاشن دیتے رہے۔ ان کی حب الوطنی کا جائزہ بھی لیا لیکن ادیب اپنی اپنی سطح پر مزاحمت کرتے رہے۔ ادبی سرگرمیاں جاری رہی۔ 1980 میں فکر تونسوی لاہور آئے تو ہندوستان واپس جا کر معروف مزاح نگار عطالحق قاکی کو انھوں 

نے جو خط لکھا اس سے ضیاء دور او تقسیم سے پہلے کے لاہور کی بابت 

معلوم ہوتا ہے: ” لا ہور کی ادبی گہما گھی بالکل شناساگی ، آزادی سے پہلے بھی لاہور اس گہما گہی کی دھونس جماتا تھا اور اہل زبان میں نام و مقام پاتا تھا۔ پاکستان کی ادبی تاریخ لاہور کے ٹی ہاؤس کے بانی مل نہیں ہوسکتی، انتظارحسین اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے بعد دلی گئے تو معلوم ہوا کہ وہاں کافی ہاوس کو اس شک کی بنیاد پر کہ دانشور حکومت کے خلاف سازشیں رچاتے ہیں مسمار کر دیا گیا ہے۔ ادھر اپنائی ہاوس ای آن بان سے قائم رہا اور چار مارشل لا بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ضیاءاحت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو عوام کی اس سے وابست تو قعات پوری نہ ہوئیں۔ بقول حبیب جالب دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے ۔ البتہ لکھنے والوں کا اس بات پر یقین رہا کہ جمہوریت کی بھی ہو آمریت سے بہر طور بہتر ہے۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس سے خطاب میں درویش صفت ادیب اورحق سید قاسم محمود نے ضیا دور کو یاد کرتے ہوئے کہا: آج کی طرح اس وقت بھی ایک پاکستانی کی حیثیت سے میرا ایمان تھا کہ اس مملکت خداداد کا ایک ہی دشمن ہے، وہ ہے وہی حکومت اور اس کا اقتدار۔ سید قاسم محمود کی طرح آمریت کے ایک اور زخم خوردہ سلیم شاہد اس نتیجے پر پہنچے 

مارشل لاؤں والے تو میرے لیے ہمیشہ قابل نفرین ہیں ان کے خلاف میری نفرت مسلم اوراگل ہے مگر یہ جمہوریت والے بھی کم برے نہیں، بالکل منافق اور مفاد پرست ۔ تا ہم اب بھی میں جمہوریت کو آمریت پرفوقیت دیتا ہوں “ 1990 میں مشتاق احد یونی کیش آب کمی آئی تو اس کے پیش لفظ میں مصنف نے بتایا کہ معاشرے کس طرح آمریت کی دلدل میں پھنستے ہیں اور تم کیا کیا غضب ڈھاتا 

ہے۔ زمانے کی رفتارتونی صدی کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی تی تھی لیکن اب اس کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ، جس کا اثر کھانے پینے پر بھی پڑا۔ روایتی کھانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ کوفروغ ملا، بات برگر سے پیزے کی طرف گئی۔ میکڈونلڈ اور کے الفی پرش بڑھا۔ اس سب نے 

روایتی ادبی ٹھکانوں کو بھی متاثر کیا، انھوں نے زمانے کی ساتھ چلنے کی ٹھانی، جو اس پر آمادہ نہ ہوئے انھوں نے کاروبار ہی لپیٹ دیا، ایک دن ٹی ہاؤس کے مالک نے اعلان کیا کہ وہ کب تک ادیوں کی خدمت کرتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ٹائروں کی دکان والے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں ۔ اس نے ٹی ہاؤس بند کر دیا۔ ادیب متحرک ہوئے ۔ ٹی ہاوس کھلوانے کی تحریک چلی ۔ وہ کھل بھی گیا لیکن اس پر پھر تالا پڑ گیا۔ اس کے مستقل مکینوں نے نئی جگہوں پر ڈیرا جمایا۔ انتظارحسین زاہد ڈار ، شاہد حمید، اکرام اللہ مسعود اشعر، خالد احمد اور ایرج مبارک اتوار کے اتوار نیرنگ گیلری میں محفل جمانے لگے۔ باقیوں نے بھی نئے ٹھکانے تلاش کر لیے۔ ٹی ہائوس لیکن بڑا ڈھیٹ نکلا۔ زیر تعمیر ہونے کے بعد 2013 میں پھر سے کھل گیا اور دیگر ادبی ٹھکانوں کی طرح احد مشتاق کے اس شعرکی زدمیں آنے سے ن گیا۔ ان ٹھکانوں کے نشانات بھی باقی نہ رہے جمع ہوتے تھے میرے یار جہاں آخرشب 

مال روڈ پر کتابوں کی بہت سی دکان میں رفته رفت ختم ہوتی گئیں یا سمٹ کر رہ گئیں کہ مالکان کے نزدیک اب بیگھاٹے کا سودا تھا۔ کتابوں کی مشہور دکان فیروز سنز جس 

سے کئی نسلوں کا ناسٹلجیا وابستہ تھا جل کر راکھ ہوئی اور وہاں جگہ کرائے کے لیے خالی ہے کا بینر آویزاں ہوا۔ کراچی اور لاہور سے ہٹ کر دوسرے شہروں میں بھی ادب فروغ پا تار با جن سے اردو ادب کے رشتے کا ایک رخ بیٹھی رہا کہ کتے ہی نامور ادیبوں کا تعلق ان شہروں سے تھا، بات کو ہاٹ کے احمد فراز کی ہو، احمد پور شرقیہ کے محمد کاظم کی ہے جنھوں نے عربی زبان کے عالم اور اردو کے ممتاز ادیب کی حیثیت سے بلند مقام حاصل کیا۔ مردان میں پیدا ہونے والی شار عزیز کا بچپن اورلڑکپن چارسدہ، پارہ چنار، ہنگو ، بنوں ، نوشہرہ کوہاٹ اور ایبٹ آباد میں گزرا اور وہیں ان کے ہاں ادب کا ذوق وشوق پروان چڑھا، جس کے بعد ان کی ادبی زندگی کا بڑا حصہ لا ہور میں بسر ہوا۔ ہری پور کے مد ارشاد کے مضامین کو اہل علم نے پذیرائی بخشی۔ اردوسے تعلق کی ایک جہت یہی رہی کہ شل عطاشاد بلوچی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر ہیں۔ حال کی بات کریں تو بلوچی شاعر منیر مومن کی نظموں کا اردو ترجمہ احسان اصغر نے گم شدہ سمندر کی آواز کے عنوان سے کیا جس پر تبصرے میں منتاز ادیب محمدسلیم الرحمن نے کھا: 

اردو ادب کے علم برداروں کی طرف سے دوسری پاکستانی زبانوں سے بالعموم جو بے اعتنائی برتی جاتی ہے وہ جتنی حیرت ناک ہے اتنی ہی افسوس ناک بھی۔ پنجابی ، سرائیکی 

اور سندھی ادب کی تو کچھ نہ پکھی برستی رہتی ہے لیکن یہ ہمارے علم میں کم کم ہی آتا ہے کہ پیستویا بلوچی میں کیا لکھا جارہا ہے۔ گزشتہ برسوں میں کتنے ہی نامی گرامی ادیب و شاعرتہ خاک چلے گئے ۔ پرانوں میں بھی ایسی ہستیاں ہمارے درمیان ہیں جن سے ادب کا وقار اور بھرم قائم ہے۔ 

کراچی میں ممتازفکشن نگار، اسد محمد خاں اورحسن منتظر موجود ہیں۔ لاہور میں اکرام اللہ مستنصرحسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ تخلیقی اعتبار سے فعال ہیں ۔ شاعری کے میدان میں کراچی میں انور شعور، زہرا نگاہ اور لاہور میں ظفر اقبال اور امجد اسلام امجد ایسے نامورخن ور ہیں۔ احمد مشتاق امریکا میں بیٹھ کر شعر کہتے اور تر ہے کرتے ہیں محمد سلیم الرحمن نظم کہہ رہے ہیں اور ان کی ادارت میں سویرا چھپ رہا ہے۔ کراچی سے اجمل کمال، با کمال ادبی پرچہ آج شائع کرتے ہیں۔ عربی زبان وادب کے عالم اور اردو 

کے نامور شاعر ونثر نگار ڈاکٹر خورشید رضوی کا وجوغنیمت ہے۔ اسلام آباد میں افتخار عارف اور کشور ناہید کی موجودگی ادب کے لیے باعث تقویت ہے۔ زمانے نے ایک اور پینترا بدلا اور پاکستان میں شائقین ادب نو قسم کے میلوں سے آشنا ہوئے جنھیں لٹریچر فیسٹیول کا نام دیا گیا جن کی کامیابی اپنی جگہ لیکن ان میں مقامی ادب اور ادبیوں کی بہت کم نمائندگی پر سنجیدہ حلقوں 

نے سوالات بھی اٹھائے۔ ان فیسٹیولز کے طفیل بڑے بڑے نامیوں کا پاکستان آنا ہوا۔۔ 2020 کے لا ہور لٹریچر فیسٹیول میں ، نوبیل انعام یافت ترک ادیب اورحان پاموک کی شرکت کو اس شہر کی ادبی زندگی کا اہم واقع قرار دیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ برس یونیسکو نے لاہور کوشہر ادب قرار دیا جو اس شہری نہیں ملک کے لیے بھی بڑے فخر کی بات ہے۔ 

پاکستان کے ریاستی جبر کے خلاف مزاحمتی ادب کی تحریک نے جن بدن دریده “گناہ گار عورتوں کو جنم دیا، ان کی آواز اب توانا ہوچکی ہے۔ ان کے دیئے ہوئے نعرے اب زبان زد عام ہورہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ریاست اور کارپوریٹ پر فیض کا بھی گرویدہ ہو چکا ہے۔ جالب نے جن کے دستور کو ماننے سے انکار کیا تھا، وہ جلسوں میں ان کی شاعری کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود پاکستانی ادب کا سفر آگے بڑھ رہا ہے۔ اب یہ کی ایک شہر یا مرکز تک محدود نہیں۔ نہ ہی پیش سرکاری ٹی وی، ریڈیو کی سر پرستی کا مرہون منت ہے۔ نئے لکھنے والے اپنے زمانے سے ہم آہنگ ہیں، نئے ادبی تصورات کو اپنی تحریروں میں سمور ہے ہیں، اور جدید پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنی آواز کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ 

admin

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *